منگل 13 مئی 2025 - 15:16
قرآن مجید نے سود کو ایک ظالمانہ اور ناجائز فائدہ اٹھانے والا عمل قرار دیا ہے: حجت‌الاسلام یوسفی

حوزہ/ حجت‌الاسلام والمسلمین حبیب یوسفی، استاد مدرسہ علمیہ آیت‌الله یثربی(رح) کاشان، نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں سود خوری کے معاشرتی نقصانات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ربا (سود) کو قرآن و سنت میں ایک ظالمانہ اور استحصالی عمل قرار دیا گیا ہے، جس کے فردی، اجتماعی اور اقتصادی میدانوں میں سنگین منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجت‌الاسلام والمسلمین حبیب یوسفی، استاد مدرسہ علمیہ آیت‌الله یثربی(رح) کاشان، نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں سود خوری کے معاشرتی نقصانات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ربا (سود) کو قرآن و سنت میں ایک ظالمانہ اور استحصالی عمل قرار دیا گیا ہے، جس کے فردی، اجتماعی اور اقتصادی میدانوں میں سنگین منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

حجت‌الاسلام یوسفی نے اپنے مقالے میں، جو "خطابہ‌های قرآن" کے عنوان سے شائع ہوا، قرآن کریم کی ان آیات کی طرف اشارہ کیا جن میں ایمان والوں کو ربا سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ ربا (سود) میں سے باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو! اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو! اور اگر توبہ کرلو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہیں واپس ملے گا، نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔" (سورہ بقرہ: 278-279)

انہوں نے بیان کیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق سود خوری نہ صرف حرام بلکہ گناہ کبیرہ میں شمار ہوتی ہے، اور اس کی حرمت پر قرآن و حدیث میں شدید تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ قرآن میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے: "اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔"

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا: "خدا کی لعنت ہو سود کھانے والے، دینے والے، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والوں پر!"

حجت‌الاسلام یوسفی نے ربا(سود) کی دو بنیادی اقسام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:

1. ربای قرضی: یعنی قرض دینے کے بدلے میں مقررہ مدت اور مقدار کے ساتھ اضافی رقم لینا۔

2. ربای معاوضی: یعنی ہم جنس اشیاء (مثلاً سونا، چاندی، گندم، جو، نمک وغیرہ) کے تبادلے میں زیادتی لینا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سود خوری اقتصادی توازن کو بگاڑ دیتی ہے، اور دولت کو معاشرے کے ایک خاص طبقے میں مرکوز کر دیتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا طبقہ صرف نفع حاصل کرتا ہے جبکہ اکثریت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سود کے منفی اثرات درج ذیل ہیں:

1. طبقاتی تفاوت اور تفریق میں شدید اضافہ

2. اقتصادی جمود اور کساد بازاری

3. معاشرتی تعلقات کی تباہی

4. پیداوار میں کمی اور اس کے نظام میں خلل

5. دولت کا محدود افراد کے ہاتھوں میں ارتکاز اور اکثریت کی اقتصادی کمزوری، یہاں تک کہ آج دنیا کے ۹۰ فیصد لوگ صرف ۱۰ فیصد دولت رکھتے ہیں اور ۱۰ فیصد افراد دنیا کی ۹۰ فیصد دولت کے مالک ہیں، جو عالمی سودی نظام کا نتیجہ ہے۔

اسلام نے ربا (سود) کے متبادل اور حلال مالی نظام بھی پیش کیے ہیں، جیسے:

قرضِ حسنہ، شراکت، مضاربت، مساقات،بیع سَلف،قسطوں پر خرید، اجارہ بشرط تملیک وغیرہ

حجت‌الاسلام یوسفی نے آخر میں امید ظاہر کی کہ امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظہور کے ساتھ اور قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر انسانیت دین کے ثمرات کا مشاہدہ کرے گی۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha